:
1
-کھلے میدان میں پڑھنا:
جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى المُصَلَّى.
(ترجمہ)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ جایا کرتے ۔
(صحیح بخاری:956)
2
-طلوع آفتاب کے بعد پڑھنا:
جیسا کہ یزید بن حمیر الرحبی رحمہ اللہ نے کہا کہ:
خَرَجَ عَبْدُ اللهِ بْنُ بُسْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم مَعَ النَّاسِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى ، فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ فَقَالَ: إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ.
(ترجمہ)
عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم
عید کے روز لوگوں کے ساتھ نکلے اور امام کی تاخیر کو ناپسند کیا اور کہا کہ:
اس وقت تک تو ہم فارغ ہوجایا کرتے تھے،اور یہ نماز چاشت کا وقت تھا۔
(سنن ابی داؤد:1135 ،سنن ابن ماجہ:1317، إرواءالغلیل تحت حديث: 632)
3
-نماز سے پہلے یا بعد نفل نہ پڑھنا:
جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:
اَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ أَضْحَى، أَوْ فِطْرٍ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا.
(ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عید کے روز نکلے،
دو رکعت نماز پڑھائی اور نہ اس سے پہلے نماز پڑھی نہ اسکے بعد۔
(صحیح بخاری:989)
4
-پہلے نماز پڑھنا پھر خطبہ پڑھنا:
جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے کہا:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يُصَلُّونَ العِيدَيْنِ قَبْلَ الخُطْبَةِ.
(ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اورسیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ اورسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عید الفطر اور عید الاضحی کے روز خطبے سے قبل نماز پڑھاتے تھے۔
(صحیح بخاری:963)
(تنبیہ)
پہلے خطبہ اور پھر نماز کی بدعت مروان نے جاری کی:
جیسا کہ طارق بن شھاب رحمہ اللہ نے کہا کہ:
أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ قَبْلَ الصَّلاَةِ مَرْوَانُ.
(ترجمہ)
عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ سب سے پہلے مروان نے دیا۔
(صحیح مسلم:کتاب الایمان ، باب کون النھی عن المنکر من الایمان..)
5
-عید گاہ میں سترہ قائم کرنا:
جیسا کہ سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ، فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ، وَلْيَدْنُ مِنْهَا، وَلَا يَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يَمُرُّ .فَلْيُقَاتِلْهُ، فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ.
(ترجمہ)
تم میں سے کوئی جب بھی نماز پڑھے تو سترے کی جانب ہو کر پڑھے،
اور اس سے قریب ہوکر کھڑا ہو،اور کسی کو اس کے آگے سے گذرنے نہ دے،
اگر کوئی گذرنا چاہے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔
(سنن ابن ماجہ:954،صفۃ الصلاۃ للالبانی،ص:126،صحیح ابی داؤد:695)
نیز سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلَى سُتْرَةٍ.
(ترجمہ)
سترے کے بغیر نماز نہ پڑھ۔
(صحیح ابن خزیمہ:800 ،صحیح ابن حبان:2362 ،حسن، صفۃ الصلاۃ، ص:115
-عید کی صرف دو رکعات نماز پڑھنا:
(ملاحظہ ہومسئلہ نمبر:3)
7
-نماز سے قبل آذان یا اقامت نہ کہنا:
جیسا کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ نے کہا:
شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْعِيدِ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ.
(ترجمہ)
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عید کے روز نماز میںحاضر ہوا،آپ نے خطبہ سے قبل نماز سے آغاز کیا، آذان اور اقامت کے بغیر۔
(صحیح مسلم:کتاب صلاۃ العیدین،صحیح بخاری960)
8
-پہلی رکعت میں سات زائد تکبیرات اور دوسری میں پانچ زائد تکبیرات پڑھنا:
جیسا کہ عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ٓ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ سَبْعًا فِي الْأُولَى، وَخَمْسًا فِي الْآخِرَةِ .
(ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نےعیدین میں پہلی رکعت میں سات
اور دوسری رکعت میں پانچ(زائد) تکبیرات کہیں۔
(سنن ابن ماجہ:1279،بیہقی کبری ٰ:6187،شرح معانی الآثار:7264،مسند احمد:24409،صحیح ابن ماجہ: 1057،شعیب الارناؤط نے اسے حسن کہا)
9
-زائد تکبیرات میں رفع الیدین کرنا:
جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہمانے کہا کہ:
وَيَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاتُهُ
(ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع سے قبل ہر تکبیر میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
(اسے علامہ البانی(ارواء الغلیل،تحت حدیث: 640 )شیخ الارناؤط (ابو داؤد:722) اور حافظ زبیر علیزئی نے صحیح کہا ہے،امام بیھقی(سنن کبری:6188) اور ابن المنذر النیسابوری (ارواء الغلیل،تحت حدیث:640) نے اس حدیث سے زوائد تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کرنے پر استدلال کیا ہے، نیزامام اوزاعی (احکام العیدین للفریابی،رقم:124)، امام مالک(ایضا،رقم:125)،امام شافعی(کتاب الام،1/237)،امام احمد(مسائل الامام احمد بروایۃ ابی داؤد،ص: 60)،امام یحیی بن معین (تاریخ ابن معین بروایۃ الدوری،2284)بھی ان تکبیرات میں رفع الیدین کے قائل تھے۔)
نیزخود ابن عمر بھی زائد تکبیرات میں رفع الیدین کیا کرتے تھے،
جیسا کہ نافع نے کہا:
أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عَلَى كُلِّ تَكْبِيرَةٍ مِنْ تَكْبِيرِ الْجِنَازَةِ.
(ترجمہ)
کہ ابن عمر جنازے کی ہر تکبیر میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
(بیہقی کبریٰ:6993،احکام الجنائز للالبانی:117)
نوٹ:
جس طرح نمازجنازہ کی تکبیرات تکبیر تحریمہ پر زائد ہوتی ہیں
اسی طرح نماز عیدین کی تکبیرات بھی تکبیرہ تحریمہ پر زائد ہوتی ہیں۔واللہ اعلم
10
-زائد تکبیرات کے درمیان دعا یا ذکر کرنا :
جیسا کہ علقمہ بن قیس النخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ:
عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: خَرَجَ الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ إلَى ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي مُوسَى وَحُذَيْفَةَ – رضي الله عنهم – قَبْلَ الْعِيدِ يَوْمًا , فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّ هَذَا الْعِيدَ قَدْ دَنَا فَكَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهِ؟، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: تَبْدَأُ فَتُكَبِّرُ تَكْبِيرَةً تَفْتَتِحُ بِهَا الصَّلَاةَ , وَتَحْمَدُ رَبَّكَ وَتُصَلِّى عَلَى النَّبِيِّ – صلى اللهُ عليه وسلَّم – ثُمَّ تَدْعُو أَوْ تُكَبِّرُ وَتَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ تُكَبِّرُ وَتَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ تُكَبِّرُ وَتَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ تَقْرَأُ ثُمَّ تُكَبِّرُ وَتَرْكَعُ، ثُمَّ تَقُومُ فَتَقْرَأُ , وَتَحْمَدُ رَبَّكَ وَتُصَلِّى عَلَى النَّبِىِّ – صلى اللهُ عليه وسلَّم – , ثُمَّ تَدْعُو وَتُكَبِّرُ وَتَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ تُكَبِّرُ وَتَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ تَرْكَعُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ وَأَبُو مُوسَى: صدق أبو عبد الرحمن .
(ترجمہ)
والی کوفہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ عید سے ایک دن قبل عبد اللہ بن مسعود اور ابو موسی الاشعری اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور کہنے لگے:
عید قریب ہے ، اس میں تکبیرات کیسے ہیں؟
تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:
ایک تکبیر(تحریمہ) آغاز میں کہو،جس کے ساتھ تم نماز کا آغاز کردو،اور اپنے رب کی حمد بیان کرو اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر صلاۃ پڑھو،
پھر دعا کرو-یا کہا- تکبیر کہو،اور اسی طرح کرو،
پھر تکبیر کہو اور اسی طرح کرو،…(مزید تین بار یہی الفاظ ہیں)
پھر تکبیر کہو اور اسی طرح کرو ،
پھر رکوع میں چلے جاؤ،
یہ سن کر حذیفہ بن یمان اور ابو موسی رضی اللہ عنہما نے کہا:
ابو عبدالرحمن (یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ)نے سچ کہا۔
(بیہقی کبریٰ:6186،طبرانی کبیر:9515،فضل الصلاۃ علی النبی للقاضی اسماعیل الازدی المتوفیٰ:282ھ بتحقیق الالبانی:88،صحیح ابی داؤد ،تحت حدیث،رقم:1046،الارواء:642)
نوٹ:
یہ روایت نقل کرنے کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا:
وَهَذَا مِنْ قَوْلِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ – رضي الله عنه – مَوْقُوفٌ عَلَيْهِ فَنُتَابِعُهُ فِي الْوُقُوفِ بَيْنَ كُلِّ تَكْبِيرَتَيْنِ لِلذِكْرِ إِذْ لَمْ يُرْوَ خِلاَفُهُ عَنْ غَيْرِهِ , وَنُخَالِفُهُ فِي عَدَدِ التَّكْبِيرَاتِ وَتَقْدِيمِهِنَّ عَلَى الْقِرَاءَةِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَمِيعًا بِحَدِيثِ رَسُولِ اللهِ – صلى اللهُ عليه وسلَّم – , ثُمَّ فِعْلِ أَهْلِ الْحَرَمَيْنِ , وَعَمَلِ الْمُسْلِمِينَ إِلَى يَوْمِنَا هَذَا , وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ. أ. هـ
(ترجمہ)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ان پر موقوف ہے ، ہم ہر دو تکبیرات کے درمیان ذکر پر تو ان کی موافقت کرتے ہیں ، کیونکہ ان کے علاوہ کسی سے اس کے برعکس کچھ مروی نہیں ، لیکن تکبیرات کی تعداد اور دونوں رکعات میں انہیں قراءت سے پہلے کہنے کے سلسلے میں ہم انکی موافقت نہیں کرتے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث اور اہل حرمین کے عمل اور ہمارے زمانے تک کے تمام مسلمانوں کے تعامل کی وجہ سے،اور توفیق دینے والا اللہ ہے۔
(بیہقی کبریٰ:6186)
نیزعلقمہ رحمہ اللہ نے مزید کہا:
قَالَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ – رضي الله عنه – فِي صَلَاةِ الْعِيدِ: بَيْنَ كُلِّ تَكْبِيْرَتَيْنِ حَمْدٌ للهِ – عزَّ وجل – وَثَنَاءٌ عَلَىَ اللّهِ.
(ترجمہ)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز عید کے متعلق کہا:
ہر دو تکبیرات کے درمیان اللہ عَزَّ وَ جَلَّ کی حمد و ثناء ہے۔
( المحاملی فی صلاۃ العيدين 2/ 121، الارواء: 642)
11
-پہلی رکعت میں سورۃ”الاعلی“ اور دوسری میں سورۃ ”الغاشیۃ“ یاپہلی میں” ق“اور دوسری میں” القمر“ پڑھنا۔
(ابو داؤد:1122،صحیح مسلم،کتاب صلاۃ العیدین،باب مایقرء بہ فی صلاۃ العیدین،الارواء:643)
12
-اگر کسی کی نماز عید رہ جائے تو وہ دو رکعت نفل ادا کرے ،نیز گاؤں میں بھی نماز عید ادا کرنا:
جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
وَأَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ مَوْلاَهُمْ ابْنَ أَبِي عُتْبَةَ بِالزَّاوِيَةِ فَجَمَعَ أَهْلَهُ وَبَنِيهِ، وَصَلَّى كَصَلاَةِ أَهْلِ المِصْرِ وَتَكْبِيرِهِمْ.
(ترجمہ)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو مضافات میں جانے کا حکم دیا ،
پھر انہوں نے اپنے گھر والوں اور بیٹوں کو جمع کیا اور انہیں شہر والوں کی طرح نماز پرھائی اور تکبیرات پڑھیں۔
(صحیح بخاری تعلیقاًقبل الحدیث:987،و رواہ ابن ابی شیبۃ موصولاً:1803،الارواءتحت حدیث:648)
13
-نماز کے بعد توجہ سے خطبہ سننامستحب و افضل ہے:
جیسا کہ عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم الْعِيدَ ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَالَ: إِنَّا نَخْطُبُ ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ لِلْخُطْبَةِ فَلْيَجْلِسْ ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَذْهَبَ فَلْيَذْهَبْ.
(ترجمہ)
میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عید کے اجتماع میں حاضر ہوا ،
جب آپ نے نماز پڑھالی تو فرمایا:
ہم خطبہ دیں گے جو سننا چاہے وہ بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے وہ چلا جائے۔
(ابوداؤد:1155،ارواءالغلیل:629)
14
-اگر عذر ہو تو مسجد میں نماز عید ادا کرنا:
یاد رہے کہ:
بلا عذر مسجد میں نماز عید ادا کرنا بدعت ہے،علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا:
(ترجمہ)
احادیث صحیحہ میں وارد شدہ سنت نبویہ ہے کہ نماز عید شہر سے باہر کھلے میدان میں پڑھی جائے،صدر اول میں اسی پر عمل رہا،وہ مساجد میں عید نہیں پڑھتے تھے،الا یہ کہ بارش وغیرہ کا عذر ہو، ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ اہل علم کا بھی یہی مذہب ہے،اور میں اس سلسلے میں کسی کی مخالفت نہیں جانتا سوائے امام شافعی کے،وہ مسجد میں نماز عید کی افضلیت کے قائل ہیں جبکہ وہ جمیع اہل بلد کو محیط ہو،اور اسکے باوجود وہ کھلے میدان میں نماز عید میں حرج نہیں سمجھتے تھے،اور اگر مسجد جمیع اہل بلد کو محیط نہ ہو تو انہوں نے صراحت کی ہے کہ اس میں عیدین کی نماز مکروہ ہے،چنانچہ یہ احادیث صحیحہ،صدر اول کا عمل، اور اقوال علماء،-حتی کہ امام شافعی کے قول کے مطابق بھی -یہ سب دلالت کرتے ہیں کہ فی زمانہ عیدین کی نماز مساجد میں پڑھنا بدعت ہے، کیونکہ ہمارے شہروں میں ایسی کوئی مسجد نہیں جو سب شہر والوں کو محیط ہو۔
(صلاۃ العیدین فی المصلی ھی السنۃ،للالبانی،ص:35)
15
-اگر جمعہ کے دن عید آجائے تو جمعہ نہ پڑھنے کی رخصت ہے:
جیسا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا:
کہ ایک دن جمعہ اور عید دونوں ایک دن میں جمع ہوگئے
تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نےجمعہ نہ پڑھنے کی اجازت دی اور فرمایا:
مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّىَ فَلْيُصَلِّ .
(ترجمہ)
جو پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے۔
(سنن ابی داؤد:1070،صحیح ابی داؤد:981)
خطبہ عید کے مسائل:
16
-صرف ایک خطبہ دینا:
کیونکہ جن روایات میں دو خطبوں کا ذکر ہے وہ ضعیف ہیں۔(الضعیفۃ:5789)
اور خطبہ عید کو خطبہ جمعہ پر قیاس کرنا درست نہیں
کیونکہ عبادات میں قیاس کادخل نہیں،
نیز یہاں قیاس ممکن بھی نہیں
کیونکہ جمعہ میں خطبہ پہلے ہے جبکہ عید میں نماز پہلے ہے،
خطبہ جمعہ سننا فرض ہے جبکہ خطبہ عید سننا مستحب ہے ۔
17
-نیزخطبہ عید کے لئے منبر کا استعمال نہ کرنا:
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز عید میں منبر کا استعمال ثابت نہیں ،
سب سے پہلے اسکا استعمال مروان نے کیا۔
(ملاحظہ ہو ،صحیح بخاری:956،الضعیفۃ:963)
18
-خطیب کاعصا پکڑنا، خطبہ حاجت پڑھنا اور وعظ و نصیحت کرنا:
جیسا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:نُووِلَ يَوْمَ الْعِيدِ قَوْسًا، فَخَطَبَ عَلَيْهِ.
(ترجمہ)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عید کے دن کمان پکڑائی گئی تو آپ نے اس پر ٹیک لگاکر خطبہ دیا۔
(سنن ابی داؤد:1145صحیح ابی داؤد:1039)
نیز جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:
فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ وَحَثَّهُمْ عَلَى طَاعَتِهِ.
(ترجمہ)
جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عید کی نماز ادا کرلی تو
بلال رضی اللہ عنہ پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے،
اللہ کی حمد و ثنا بیان کی،اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی،اور اپنی اطاعت کی ترغیب دی۔
(سنن نسائی:1575،اسکی اصل صحیح مسلم ”885“میں ہے،الارواء:646)
19
-اگر ضرورت ہو تو خواتین کو الگ سے وعظ و نصیحت کرنا:
جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا کہ:
أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَصَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ قَالَ ثُمَّ خَطَبَ فَرَأَى أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ فَأَتَاهُنَّ فَذَكَّرَهُنَّ وَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ وَبِلاَلٌ قَائِلٌ بِثَوْبِهِ فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِى الْخَاتَمَ وَالْخُرْصَ وَالشَّىْءَ.
(ترجمہ)
میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبے سے قبل نماز پڑھائی،
پھر خطبہ دیا،
پھر آپ نے خیال کیا کہ خواتین تک آپکی آواز نہیں پہنچی،
چنانچہ آپ انکے پاس گئے،اورانہیں وعظ و نصیحت کی
اور صدقہ کرنے کا حکم دیا،
چنانچہ بلال نے کپڑا پھیلایا،تو خواتین اپنے زیورات سے صدقہ کرنے لگیں۔
(صحیح بخاری:1449 ،صحیح مسلم:کتاب صلاۃ العیدین)
متفرقات:
20
-اجتماعی دعا کرنا :
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خواتین کوعید گاہ میں لانے کے متعلق فرمایا کہ:
فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ، وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ عَنْ مُصَلَّاهُنَّ.
(ترجمہ)
وہ مسلمانوں کے اجتماع اور انکی دعا میں شریک ہوں،
اور حیض والی خواتین انکی عید گاہ سے الگ رہیں۔
(صحیح بخاری:351)
21
-عید کی مبارکباد دینا:
جیسا کہ جبیر بن نفیر رحمہ اللہ نے کہا کہ:
كَانَ أَصحَابُ النَّبِيّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيهِ وَ سَلَّمَ إِذَا التَقَوا يَومَ العِيدِ يَقُولُ بَعضُهُم لِبَعضٍ : تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَمِنكَ.
(ترجمہ)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ عید کے روز جب ایک دوسرے سے ملتے تو کہتے:
تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنکَ.
یعنی اللہ تعالیٰ ہمارے اور آپکے نیک اعمال قبول کرے ۔
(تمام المنۃ للالبانی،1/354،الضعیفۃ،تحت حدیث:5666)
(تنبیہ)
عید کی نماز کے بعد مروجہ مصافحہ یا معانقہ کتاب وسنت یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب وھو ولی التوفیق
کتبہ:مدثر بن ارشد لودھی عفی عنہ
This design is incredible! You obviously know how to keep a reader amused.
Between your wit and your videos, I was almost
moved to start my own blog (well, almost…HaHa!) Wonderful job.
I really loved what you had to say, and more than that, how you presented
it. Too cool!
Hi, i think that i saw you visited my weblog thus i came to ?return the
favor?.I’m attempting to find things to improve my web site!I suppose its ok to use a few of your ideas!!
Also visit my page: TruBeauty Cream
I every time used to read paragraph in news papers but
now as I am a user of net thus from now I am using net for content, thanks to web.
Feel free to visit my web page – Organic Relief CBD Oil Price
Good site! I really love how it is simple on my eyes and the data are
well written. I’m wondering how I might be notified when a new post has been made.
I’ve subscribed to your RSS feed which must do the trick!
Have a nice day!
Also visit my page :: http://cyalix.org/
Hello there! This is my first visit to your blog!
We are a team of volunteers and starting a new project in a community in the same
niche. Your blog provided us beneficial information to work on. You have done a wonderful job!
I got this web page from my buddy who told me on the topic of this site and at the moment this time I
am browsing this web site and reading very informative content
at this place.
Hi! I simply wish to offer you a big thumbs up for
the great info you have here on this post. I am coming back to your site for
more soon.
My brother recommended I might like this web site.
He was totally right. This post actually made my day.
You cann’t imagine just how much time I had spent for this information! Thanks!