وجہ تسمیہ:
یہ دو لفظوں سے ملکر بنا ہے ،
”عید“جسکا معنی ہے لوٹنا،
اور ”الفطر“جسکا معنی ہے” روزہ چھوڑنا“،
مراد خوشی کا وہ دن ہے جو ہر سال ماہ صیام رمضان المبارک کے اختتام پر آتا ہے،
اس دن میں مسلمان اپنے رب کے احسانات اور اسکی نعمتوں کا اجتماعی طور پر شکر بجا لاتے ہیں
اور ان پر فرحت و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
شرعی حیثیت و حکمت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ
اہل مدینہ سال میں دو دن عید مناتے ہیں،
ایک” نوروز“ دوسرا” مہرجان“،
تو نبی کریمصلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ عزَّ وجل قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا ، يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى.
(ترجمہ)
اللہ عز وجل نے تمہیں ان دو دنوں کے بجائے
یوم الفطر اور یوم الاضحی عطا فرمائے ہیں۔
(سنن ابی داؤد:1134،الصحیحۃ:2021)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ:
اسلام میں سالانہ عیدیں صرف دوہیں،
عید الفطر اور عید الاضحی،
تیسری سالانہ عید کا نظریہ باطل اور بدعت ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دو دنوں کو
زمانہ جاہلیت کے دو دنوں،”نوروز“ اور” مہرجان“ کے مقابلے میں پیش کیا ،
چنانچہ اسلام آجانے کے بعد ان دود دنوں کا منانا
اہل جاہلیت کے ساتھ مشابہت اور خلاف شریعت ہے۔
یہ دو دن مسلمانوں کی خوشی منانے کے دن ہیں،
عید الفطر کی خوشی کی وجہ ماہ رمضان کے روزوں کی
تکمیل ہے ،جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
لِلصَّائمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِه.
(ترجمہ)
روزے دار کے لئے خوشی کے دو موقعے ہیں
ایک جب وہ روزے رکھنا چھوڑتا ہے
( تو وہ روزوں کی تکمیل پر خوش ہوتاہے)،
دوسرا جب وہ اپنے رب سے ملے گا
(اور وہ اسے جزا دیگا)
تو وہ اپنے روزے پر خو ش ہوگا۔
(صحیح بخاری:1904)
ایک رویت میں ہے:
فَرِحَ بِفِطْرِهِ.
(ترجمہ)
روزوں کے چھوٹنے (یعنی انکی تکمیل )پر خوش ہوتا ہے
(نہ کہ افطار کے وقت کھانے پینے پر)۔
(صحیح مسلم،باب فضل الصیام)
یعنی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ماہ رمضان کے روزے رکھے ،
گناہ بخشوائے،درجات بلند کروائے،اعمال نامے میں حسنات کا اضافہ کیا…وغیرہ ،
چنانچہ عید کے روز اللہ تعالیٰ کے اِن انعامات پر خوش ہوتا ہے
اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتا ہے۔
آداب و مستحبات عید:
عید الفطر کا دن چونکہ مسلمانوں کی اجتماعی خوشی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنےکادن ہے
لہذاس دن کے احکامات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے تاکہ
یہ دن صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا دن ثابت ہو
اور مسلمان اس دن خوشی میں بے قابو ہوکر شرعی حدود و قیود کو پامال نہ کریں۔
1
-نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
(صحیح بخاری:1993-1994)
2
-یکم شوال ،غروب آفتاب سے نماز عید تک با آواز بلند تکبیرات پڑھنا:
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےماہ رمضان کے تذکرے میں فرمایا:
وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.
(ترجمہ)
تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرلو اور اللہ نے تمہیں جو توفیق دی
اس پر اسکی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔
(سورۃ البقرۃ:185)
امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم رحمہ اللہ نے فرمایا:
وَهَذِهِ سُنَّةٌ تَدَاوَلَهَا أَئِمَّةُ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَصَحَّتْ بِهِ الرِّوَايَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَغَيْرِهِ مِنَ الصَّحَابَة.
(ترجمہ)
تکبیرات پڑھنا سنت ہے جسے محدثین نے ایک دوسرے سے نقل کیا ہے
اور عبد اللہ بن عمر وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اسکی روایت صحیح ثابت ہے۔
(المستدرک:1105)
نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس موقع پر تکبیرات پڑھا کرتے تھے:
جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے کہا کہ:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم يُكَبِّرُ يَوْمَ الْفِطْرِ مِنْ حِينِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ حَتَّى يَأتِىَ الْمُصَلَّى .
(ترجمہ)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم عید الفطر کے روزاپنے گھر سے نکلتے وقت تکبیرات پڑھتے
حتی کہ عید گاہ پہنچ جاتے۔
(مستدرک حاکم: 1105 ،سنن دارقطنی: 1714،سنن بیہقی کبریٰ:6131، الارواء، تحت حديث،رقم: 650 ،صحیح الجامع: 5004،الصحیحۃ:171)
تکبیرات کے الفاظ:
اَللّٰهُ اَكبَرُ ،اَللّٰهُ اَكبَرُ ،اَللّٰهُ اَكبَرُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ ، وَاللّٰهُ اَكبَرُ ، اَللّٰهُ اَكبَرُ ، وَلِلّٰهِ الحَمدُ.
(الارواء:654)
اَللّٰهُ اَكبَرُ كَبِيراً ، اَللّٰهُ اَكبَرُ كَبِيراً ،اَللّٰهُ اَكبَرُ وَاَجَلُّ ، اَللّٰهُ اَكبَرُ وَلِلّٰهِ الحَمدُ.
(الارواء:654)
اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ ، اللهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ، اللهُ أَكْبَرُ عَلَى مَا هَدَانَا.
(بیہقی کبریٰ:6280)
اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا،اَللّٰهُمَّ أَنْتَ أَعْلَى وَأَجَلُّ مِنْ أَنْ تَكُونَ لَكَ صَاحِبَةٌ، أَوْ يَكُونَ لَكَ وَلَدٌ، أَوْ يَكُونَ لَكَ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ، أَوْ يَكُونَ لَكَ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَنَا، اَللّٰهُمَّ ارْحَمْنَا.
(بیہقی کبریٰ:6282)
4
-نماز عید کے لئے غسل کرنا:
تابعی کبیر نافع رحمہ اللہ نے کہا:
أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَغْتَسِلُ يَوْمَ الْفِطْرِ، قَبْلَ أَنْ يَغْدُوَ إِلَى الْمُصَلَّى.
(ترجمہ)
سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماعید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل غسل کرتے۔
(مؤطا :609،اسے الارناؤط نے صحیح کہا:سنن ابن ماجہ،تحت حدیث رقم:1315)
نیزابو عمر زاذان الکندی رحمہ اللہ نے کہا کہ:
سَأَلَ رَجُلٌ عَلِيًّا رضي الله عنه عَنِ الْغُسْلِ ، قَالَ: اغْتَسِلْ كُلَّ يَوْمٍ إِنْ شِئْتَ ، فَقَالَ: لَا ، الْغُسْلُ الَّذِي هُوَ الْغُسْلُ قَالَ: يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيَوْمَ عَرَفَةَ، وَيَوْمَ النَّحْرِ، وَيَوْمَ الْفِطْرِ.
(ترجمہ)
ایک شخص نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے غسل کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ:
ہر روز غسل کر اگر تو چاہے ،
اس نے کہا :
نہیں میں غسل خاص کے متعلق پوچھ رہا ہوں ،
تو انہوں نے کہا:
جمعہ کے دن ،عرفہ کے دن،عید الاضحی کے دن اور عید الفطر کے دن۔
(سنن بیہقی کبریٰ:6124، ارواء الغلیل،تحت حدیث رقم:146)
4-خوبصورت لباس پہننا ،خوشبو لگانااور زینت اختیار کرنا:
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللهُ لِلْمُسْلِمِينَ ، فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ ، وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ ، وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ .
(ترجمہ)
یہ عید کا دن ہے اللہ نے اسے مسلمانوں کے لئے مقرر کیا ہے ،
لہذا جو جمعہ کے لئے وہ غسل کرلے اور اگر ہو تو خوشبو لگا لے،
اور مسواک ضرور کیا کرو۔
(سنن ابن ماجہ: 1098 ، طبرانی اوسط: 7355، صحیح الجامع: 2258 ،صحیح الترغیب:707)
نیزسیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاکہ:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَلْبَسُ يَوْمَ الْعِيدِ بُرْدَةً حَمْرَاءَ.
(ترجمہ)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم عید کے روز سرخ چوغہ پہنتے تھے۔
(طبرانی اوسط:7609،الصحیحۃ:1279)
نافع رحمہ اللہ نے کہا:
أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَلْبَسُ فِي الْعِيدَيْنِ أَحْسَنَ ثِيَابِهِ.
(ترجمہ)
ابن عمر رضی اللہ عنہما عیدین میں اپنا سب سے عمدہ لباس زیب تن کرتے۔
(سنن بیہقی کبریٰ:6143،اسکی سند حسن ہے،فتح الباری لابن رجب:8/414)
5
-عید گاہ جاتے ہوئے گھر سے کچھ کھا کر نکلنا:
جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ وَيَأْكُلَهُنَّ وِتْرًا.
(ترجمہ)
نبی صلی اللہ علیہ و سلمعیدکے روز گھر سے کھجور کھا کر نکلتے اور طاق تعداد میں کھاتے۔
(صحیح بخاری:953
6
-گھر کی خواتین اور بچوں کو بھی لے کر نکلنا:
جیسا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنھا نے کہا:
أَمَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ نُخْرِجَ العَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الخُدُورِ.
(ترجمہ)
ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم قریب البلوغ لڑکیوں اور پردےدار خواتین کو بھی نکالیں ۔
(صحیح بخاری:974)
نیز کہا:
أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ، يَوْمَ الْعِيدَيْنِ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ، وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ عَنْ مُصَلاَّهُن قَالَتِ امْرَأَةٌ : يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا.
(ترجمہ)
ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عیدین کےروز حیض والی خواتین اورپردہ نشینوں کو بھی نکالیں
پس وہ مسلمانوں کی جماعت اور انکی دعا میں شریک ہوں
البتہ حیض والی خواتین انکی عید گاہ سے الگ رہیں ،
ایک عورت نے کہا:
ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو؟
آپ نے فرمایا:
اسے اسکی بہن اپنی چادر کا کچھ حصہ اسےاوڑھادے۔
(صحیح بخاری:351)
نیزابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بَنَاتَهُ وَنِسَاءَهُ أَنْ يَخْرُجْنَ فِي الْعِيدَيْنِ.
(ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیٹیوں اور گھر والیوں کو حکم دیتے کہ وہ عیدین کی نماز میں حاضر ہوں۔
(مسند احمد:2054،صحیح الجامع:4888،الصحیحۃ،رقم:2115)
نیز عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہمانے کہا کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْرُجُ فِي الْعِيدَيْنِ مَعَ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللهِ، وَالْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، وَجَعْفَرٍ، وَالْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَزَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَأَيْمَنَ بْنِ أُمِّ أَيْمَنَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ رَافِعًا صَوْتَهُ بِالتَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ، فَيَأْخُذُ طَرِيقَ الْحَدَّادِينِ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى، وَإِذَا فَرَغَ رَجَعَ عَلَى الْحَذَّائِينَ حَتَّى يَأْتِيَ مَنْزِلَهُ.
(ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عیدین میں
فضل بن عباس ،عبد اللہ ،عباس،علی،جعفر،حسن،حسین،اسامۃ بن زید،زید بن حارثۃ، ایمن،رضی اللہ عنھم
کے ساتھ با آواز بلند تکبیر و تہلیل پڑھتے ہوئے حدادین کے راستے سے نکلتے ،
عید گاہ پہنچتے ،اور جب فارغ ہوتے تو
حذائین کے راستے سے واپس آتے حتی کہ گھر پہنچ جاتے۔
(بیہقی کبری:6130،ارواءالغلیل:650،الصحیحۃ،رقم:171)
7
-پیدل چل کر جانا،واپس بھی پیدل آنا:
ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:
کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا، وَيَرْجِعُ مَاشِيًا.
(ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عید کے لئے پیدل جاتے اور پیدل ہی واپس آتے۔
(ابن ماجہ:1295 ،صحیح الجامع:4932،الارواء:636)
البتہ واپسی میں راستہ بدلنا،
جیسا کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہمانے کہا کہ:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ.
(ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عید کے دن راستہ بدلتے۔
(بخاری:943)
8
-تکبیرات پڑھتے ہوئے جانا:
جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم يُكَبِّرُ يَوْمَ الْفِطْرِ مِنْ حِينِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ حَتَّى يَأتِىَ الْمُصَلَّى .
(ترجمہ)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم عید الفطر کے روز
اپنے گھر سے نکلتے وقت تکبیرات پڑھتے حتی کہ عید گاہ پہنچ جاتے۔
(مستدرک حاکم: 1105 ،سنن دارقطنی: 1714،سنن بیہقی کبریٰ:6131، الارواء، تحت حديث،رقم: 650 ،صحیح الجامع: 5004،الصحیحۃ:171)
خواتین بھی تکبیرات پڑھتے ہوئے جائیں:
جیسا کہ ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ:
الْحُيَّضُ يَخْرُجْنَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ يُكَبِّرْنَ مَعَ النَّاسِ.
(ترجمہ)
حائضہ عورتیں بھی نکلتیں اور وہ لوگوں سے پیچھے رہ کر تکبیرات پڑھتیں۔
(صحیح مسلم،کتاب صلاۃ العیدین:باب اباحۃ روج النساء فی العیدین الی المصلی..)
البتہ آواز پست رکھیں۔
9
-نکلنے سے قبل صدقۃ الفطر ادا کردینا:
(ملاحظہ ہو صدقۃ الفطر کے مسائل)
10
-کسی بھی دوسرے کام سے پہلے نماز عید ادا کرنا:
جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ و سلم يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى ، فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلَاةُ.
(ترجمہ)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم عیدین کے روز عید گاہ جاتے اور سب سے پہلے نما زپڑھاتے۔
(صحیح بخاری:956)
11
-چھوٹے بچوں اوربچیوں کو اشعار گانے کی چھوٹ دینا:
12
-مردوں کا بھی کھیل کود کرنااور خواتین کا اسے ملاحظہ کرنا:
جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا:
دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثٍ ، فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ ، وَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ: مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ” دَعْهُمَا ” ، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا ، وَقَالَتْ: كَانَ يَوْمُ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ ، فَإِمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَإِمَّا قَالَ: ” تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ؟ ” ، فَقُلْتُ: نَعَمْ ، فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ ، خَدِّي عَلَى خَدِّهِ ، وَهُوَ يَقُولُ: ” دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ ” ، حَتَّى إِذَا مَلَلْتُ قَالَ: ” حَسْبُكِ؟ ” ، قُلْتُ ، نَعَمْ ، قَالَ: ” اذْهَبِي ”
(ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس(عید کے روز) تشریف لائےتو دوبچیاں جنگ بعاث کے اشعار ترنم کے ساتھ پڑھنے لگیں،آپ بستر پر لیٹ گئے اور چہرہ پھیر لیا،پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں شیطان کا گانا ؟چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم انکی طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے:انہیں رہنے دو،پھر جب آپ کسی دوسری جانب متوجہ ہوئے تو میں نے انہیں ٹہوکا لگایاتو وہ دونوں چلی گئیں،نیز کہاکہ:عید کے روز حبشی چمڑے کی ڈھالوں اور چھوٹے نیزوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،تو یا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا یا آپ نے مجھ سے کہ:کیا تو دیکھنا چاہتی ہے؟میں نے کہا :جی ہاں،پھر آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کرلیا ،میرا گال آپکے گال سے مس کررہا تھا،اور آپ فرمارہے تھے:آگے بڑھو اے بنی ارفدۃ،حتی کہ میں تھک گئی تو آپ نے پوچھا:کافی ہے؟میں نے کہا:جی ہاں،آپ نے فرمایا:چلی جا۔
(صحیح بخاری:949-950)
13
-مرد و زن کا اختلاط نہ کرنا:
جیسا کہ اسید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم وَهُوَ خَارِجٌ مِنْ المَسْجِدِ، وَقَدْ اخْتَلَطَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاءِ فِي الطَّرِيقِ. فَقَالَ: “اسْتَأْخِرْنَ فَلَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِيقَ، عَلَيْكُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِيقِ” فَكَانَتْ المَرْأَةُ تُلْصِقُ بِالجِدَارِ حَتَّى إِنَّ ثَوْبَهَا لَيَتَعَلَّقُ بِالجِدَارِ مِنْ لُصُوقِهَا بِهِ.
(ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد سے باہر نکلے تو راستے میں مرد و زن کا اختلاط ہورہا تھا ،
تو آپ نے فرمایا:
عورتوں پیچھے رہو ،
تمہیں راستے کے بیچ میں چلنے کا حق نہیں،
تم راستے کے کناروں پر ہی رہا کرو
چناچہ عورت دیوار کے ساتھ لگ کر چلتی
حتی کہ اسکا کپڑا دیوار کے ساتھ اٹکتا۔
(ابوداؤد:5272،الصحیحۃ:856)
14
-فحاشی و عریانیت سے بچنا:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آَبَائِهِنَّ أَوْ آَبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(ترجمہ)
اے نبی صلی اللہ علیہ و سلممومنوں سے کہیں کہ:
وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں،
یہ انکے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے،
اور مومن خواتین سے کہیں کہ:
وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں،
اور اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کیا کریں،
سوائے اپنے خاوندوں ،یا اپنے باپوں یا اپنے سسروں یااپنےبیٹوں یااپنےخاوندوں کے بیٹوں یااپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی عورتوں کے،یا اپنی لونڈیوں کےیاایسے نوکروں کے جو شہوت والے نہ ہوں،یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے واقف نہ ہوں،
اور (یہ بھی کہہ دیں کہ)
چلتے وقت اپنے پیروں کو زمین پر مارکر نہ چلیں تاکہ انکی پوشیدہ زینت معلوم کرلی جائے،
اور اے ایمان والو تم سب اللہ کے ہاں توبہ کرتے رہو تاکہ فاح پاجاؤ۔
(سورۃ النور:30-31)
15
-اسراف اور فخر و ریاء سے بچنا:
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ.
(ترجمہ)
اے اولاد آدم ہر عبادت کےوقت اپنی زینت اختیار کرو ،
اور کھاؤ ،پیو ، اور فضول خرچی نہ کرو ،
کیونکہ وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
(سورۃ الاعراف:31)
نیز ارشاد فرمایا:
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ .
(ترجمہ)
اور لوگوں کے سامنے اپنے گال مت پھلا،
نہ ہی زمین میں اکڑ کر چل،
کیونکہ اللہ کسی بھی گھمنڈی ،اور شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا،
اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر
اور اپنی آواز کو پست رکھ ،
بے شک سب سے بری آواز گدھے کی آوازہے۔
(سورۃلقمان:18-19)
16
-غرباء و مساکین کا خاص خیال رکھنا:
جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عید کے خطبے میں ارشاد فرماتے:
تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا.
(ترجمہ)
صدقہ کرو،صدقہ کرو،صدقہ کرو۔
(صحیح مسلم:کتاب صلاۃ العیدین)
ت
اکہ مسلمان فقراء و مساکین بھی عیدکی خوشیوں میں برابر شریک ہوسکیں۔
)
Perfectly pent content material, Really enjoyed examining.
Have a look at my website; Alpha IQ Mind
Go browsing now and flick thru sites that have these growth trackers accessible and
uncover how they work.
I need to to thank you for this great read!! I definitely loved every bit of it.
I have you book-marked to look at new things you post?
my blog post – StopWatt Review
WOW just what I was looking for. Came here by searching for indoor growing mini-course
My web page :: https://besthealthcbd.org/
I was curious if you ever thought of changing the page layout of
your blog? Its very well written; I love what youve got to say.
But maybe you could a little more in the way of content
so people could connect with it better. Youve got
an awful lot of text for only having 1 or two pictures.
Maybe you could space it out better?
my web page; http://kentairconditioning.qhub.com/member/1998864
Hi, I do believe this is an excellent web site. I stumbledupon it 😉 I may revisit once again since I book marked
it. Money and freedom is the best way to change, may you be rich and
continue to help other people.
Thankfulness to my father who told me on the topic of this blog, this website is really awesome.